• مسجد محتسب ، دھلی انڈیا
  • پیر سے ہفتہ 8:00 - 18:00
Follow Us:

ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

نام : عبد اللہ

نسب نامہ :

عبد اللہ بن عثمان بن عامر بن عمر وبن کعب بن سعد بن تمیم بن مرۃ بن کعب بن لوی بن غالب القرشی التمیمی

کنیت :  ابو بکر

القاب :

عتیق    ( آزاد )

آپ کے حسن و جمال ، اعلی حسب ونسب ،جود وسخاوت کی وجہ سے  اور نبی ﷺ کی بشارت کے پیش نظر جہنم سے اللہ کے عتیق (آزاد کردہ ) ہونے کی وجہ سے آپ کو عتیق کہا گیا ہے ۔

صدیق( سچائی کا پیکر )

جب رسول اللہ ﷺ کے اسراء و معراج کا واقعہ پیش آیا اور آپ نے لوگوں کو اس کی خبر دی تو لوگوں نے جھٹلادیا بلکہ کچھ لوگ مرتد ہوگئے لیکن جب یہ بات ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بتائی گئی تو انہوں نے کہا اگر یہ بات آپ ﷺ نے کہی ہے تو سچ ہے۔اسی وجہ سے آپ کو صدیق کے لقب سے ملقب کیا گیا ۔

صاحب  ( ساتھی )

مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے سفر میں جب غار ثور میں آپ ﷺ کے ساتھ ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور دشمن غار کے بالکل قریب موجود تھے اور اللہ کے نبی اپنے صاحب ( ساتھی ) یعنی ابو بکر کو تسلی دے رہے تھے اسی منظر کو بیان کرتے ہوئے اللہ نے سورۃ التوبہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صاحب کا لقب عطافرمایا ۔

اتقی  ( بڑا متقی )

ابتداء اسلام میں جب مشرکین کی طرف سے  کمزور اور غلام مسلمانوں  پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کو ظلم سے بچانے کے لئے اپنے مال سے ان کو خرید کر اللہ کی راہ میں آزاد کردیتے تھے ، والد کے  اعتراض پر کہا کہ   ابا جان! یہ سب میں اللہ کے لئے کر رہا ہوں ۔ اس پر اللہ نے سورۃ اللیل میں آپ کو اتقی کے لقب سے ملقب فرمایا ۔

اَوّاہ ( نرم دل )

ابوبکر رضی اللہ عنہ بہت نرم اور رحم دل تھے اسی وجہ سے آپ کا نام  اَوّاہ  پڑگیا تھا ۔

والد :

عثمان بن عامرہے ان کی کنیت ابو قحافہ ہے ، یہ فتح    مکہ کے دن اسلام لائے ۔

والدہ :

سلمٰی بنت  صخر ہے  ان کی کنیت  ام الخیر ہے یہ اسلام کے ابتدائی دور میں ہی اسلام لاچکی تھیں ۔

بیویاں :

ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کل چار شادیاں کیں جن سےتین لڑکے اور تین لڑکیاں پیدا ہوئیں ۔

قتیلہ بنت عبد العزیٰ: ان کے اسلام کے سلسلے میں مؤرخین کا اختلاف ہے، دور جاہلیت میں آپ نے ان کو طلاق دے دیا تھا ،ان سے عبد اللہ بن ابی بکر  اور اسماء بنت ابی بکر رپیدا ہوئیں ۔

ام رومان بنت عامر بن عویمر رضی اللہ عنہا :  ان کے پہلے شوہر کا انتقال ہوگیا تو ابوبکررضی اللہ عنہ نے ان سے شادی کرلی ،یہ ابتدائی دور میں ہی اسلام سے مشرف ہوئیں ، رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی اور مدینہ کی  طرف ہجرت کی ، سن 6 ہجری میں مدینہ کے اندر ہی ان کی وفات ہوئی اور ان سے عبد الرحمن بن ابی بکر اور ام المؤمنین عائشہ بنت ابی بکر پیداہوئیں ۔

اسماء بنت عمیس  رضی اللہ عنہا : یہ مسلمانوں کے دار ارقم میں داخل ہونے سے پہلے ہی اسلام سے مشرف ہوکر رسول اللہ ﷺ سے بیعت کر چکی تھیں ،اورپہلی ہجرت حبشہ میں اپنے شوہر جعفر بن ابی طالب کے ساتھ شریک تھیں پھر ان کے ساتھ وہاں سے مدینہ تشریف لائیں ۔ جنگ موتہ سن 8 ہجری میں جب ان کے شوہر جعفر رضی اللہ عنہ  شہید ہوگئے تو ان ابوبکر رضی اللہ عنہ نے شادی کرلی اور ان سے محمد بن ابی بکر پیدا ہوئے ۔

صحابہ اور صحابیات میں سے کئی لوگوں نے ان سے احادیث رسول ﷺ روایت کی ہیں ۔

حبیبہ بنت خارجہ  رضی اللہ عنہ : انصار کے قبیلۂ خزرج سے ان کا تعلق تھا عوالی مدینہ میں مقام ” سخ ” میں ابوبکر رضی اللہ ان کے ساتھ رہتے تھے انہی کے بطن سے آپ کی صاحبزادی  ام کلثوم بنت ابی بکر پیدا ہوئیں ۔

اولاد

آپ کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں ۔

(1) عبد الرحمن بن ابی بکر                (2) عبد اللہ بن ابی  بکر      (3) محمد بن ابی بکر    (4) اسماء بنت ابی بکر        

(5) ام المؤمنین عائشہ بنت ابی بکر   (6) ام کلثوم بنت ابی بکر   رضی اللہ عنہم ۔

 ظہور اسلام سے قبل ابو بکر رضی اللہ عنہ  کے اخلاق و کردار

ظہور اسلام سے پہلے ( دور جاہلیت میں )  آپ کو قریش کے سرداروں اور ان کے معزز لوگوں میں شمار کیا جاتا تھا ، لوگ اپنے مسائل و معاملات میں آپ کی طرف رجوع کرتے تھے ،مکہ میں آپ پیشے سے تاجر تھے ، بڑی سخاوت سے اپنا مال خرچ کرنے کے ساتھ  مہمانی نوازی میں انفرادی حیثیت کے مالک تھے اور آپ کے اندر چند ایسی خصوصیت تھی جس کی وجہ سے آپ عربوں میں ہر دل عزیز تھے،لوگ آپ سے غایت درجہ محبت کرتے تھے  ۔

علم انساب  ( انسانی نسلوں کا علم )

عرب کی تاریخ اور انساب کے علماء میں آپ کا شمار ہوتا تھا ،آپ کو اس میں بڑی مہارت حاصل تھی آپ دوسروں  کے انساب میں نہ عیب لگاتے تھے اور نہ ہی ان کے عیوب کو ذکر کرتے تھے ، آپ قریش میں قریشی انساب کے سب سے زیادہ ماہر تھے اسی لئے آپ ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا  : ” یقینا ابو بکر قریش میں ان کے انساب کا سب سے زیادہ علم رکھتے ہیں "۔

قبل اسلام ( دور جاہلیت ) میں بھی شراب نہیں پی :

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : ابو بکر رضی اللہ عنہ نے شراب کو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا ، نہ تو جاہلیت میں  شراب پی اور نہ اسلام میں ۔ ایک شخص نے آپ سے پوچھا سے پوچھا : کیا آپ نے جاہلیت میں کبھی شراب پی ہے ؟تو آپ نے فرمایا :  اعوذ باللہ ( اللہ کی پناہ ) پھر پوچھا گیا : کیوں ؟ آپ نے فرمایا : میں اپنی عزت و مروت کی حفاظت کی خاطر اس سے دور رہا کیونکہ جو بھی شراب پیتا ہے وہ اپنی عزت و مروت کو ضائع کر دیتا ہے ۔

بت کو سجدہ نہیں کیا :

آپ نے صحابہ کرام کے ایک مجمع میں  فرمایا : میں نے کبھی بھی کسی بت کو سجدہ نہیں کیا کیونکہ جس میں بلوغت کی عمر کو پہونچا تو میرے والد ابو قحافہ میرا ہاتھ پکڑ کر ایک بت خانہ میں لے گئے اور مجھ سے کہا : یہ اونچی شان والے تمہارے معبود ہیں اور وہاں مجھے چھوڑ کر چلے گئے ، میں بت سے قریب ہوا اور کہا : میں بھوکا ہوں مجھے کھانا کھلا دو ، اس نے جواب نہیں دیا ، میں نے کہا : میں ننگا ہوں  مجھے لباس پہنا دو ، اس نے جواب نہیں دیا، میں نے ایک پتھر اٹھا کر مارا تو وہ منہ کے بل گر پڑا ۔

Share This:

Leave Your Comments

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

التقوى 2023 - كل الحقوق محفوظة